یہ اتنا اہم کیوں ہے؟
مسیحیوں کے لیے ایسٹر (عید قیامت المسیح) سال کا سب سے اہم وقت ہے۔ ایسٹر اس بات کو یاد کرنے کے بارے میں ہے کہ یسوع کے ساتھ کیا ہوا جب وہ مر جاتا ہے اور پھر زندہ ہو جاتا ہے۔ یسوع نے ہمارے گناہ کی سزا ادا کی اور پھر اس نے گناہ کی طاقت پر فتح حاصل کی تاکہ ہم گناہ کے اصل نتیجے سے آزاد ہو سکیں جو موت ہے۔
کیا ہوا؟
ہر آیت کو پڑھیں اور ایک نوٹ بنائیں
(1) اور جب یِسُوؔع یہ سب باتیں ختم کر چُکا تو اَیسا ہُؤا کہ اُس نے اپنے شاگِردوں سے کہا۔
(2) تُم جانتے ہو کہ دو دِن کے بعد عِیدِ فسح ہو گی اور اِبنِ آدم مصلُوب ہونے کو پکڑوایا جائے گا
(3) اُس وقت سردار کاہِن اور قَوم کے بُزُرگ کائِفا نام سردار کاہِن کے دِیوان خانہ میں جمع ہُوئے۔ اور مشورَہ کِیا کہ یِسُوع کو فریب سے پکڑ کر قتل کریں۔
(55) اُسی وقت یِسُوؔع نے بِھیڑ سے کہا کیا تُم تلواریں اور لاٹِھیاں لے کر مُجھے ڈاکُو کی طرح پکڑنے نِکلے ہو؟ مَیں ہر روز ہَیکل میں بَیٹھ کر تعلِیم دیتا تھا اور تُم نے مُجھے نہیں پکڑا۔
(56) مگر یہ سب کُچھ اِس لِئے ہُؤا ہے کہ نبِیوں کے نوِشتے پُورے ہوں اِس پر سب شاگِرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔
(59) اور سردار کاہِن اور سب صدرعدالت والے یِسُوؔع کو مار ڈالنے کے لِئے اُس کے خِلاف جُھوٹی گواہی ڈُھونڈنے لگے۔
(60) مگر نہ پائی گو بُہت سے جُھوٹے گواہ آئے۔
(61) لیکن آخِر کار دو گواہوں نے آ کر کہا کہ اِس نے کہا ہے مَیں خُدا کے مَقدِس کو ڈھا سکتا اور تِین دِن میں اُسے بنا سکتا ہُوں۔
(62) اور سردار کاہِن نے کھڑے ہو کر اُس سے کہا تُو جواب نہیں دیتا؟ یہ تیرے خِلاف کیا گواہی دیتے ہیں؟
(63) مگر یِسُوؔع خاموش ہی رہا۔ سردار کاہِن نے اُس سے کہا مَیں تُجھے زِندہ خُدا کی قَسم دیتا ہُوں کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا مسِیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔
(64) یِسُوؔع نے اُس سے کہا تُو نے خُود کہہ دِیا بلکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِس کے بعد تُم اِبنِ آدم کو قادِرِ مُطلِق کی دہنی طرف بَیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔
(65) اِس پر سردار کاہِن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کُفربکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تُم نے ابھی یہ کُفر سُنا ہے۔ تُمہاری کیا رائے ہے؟
(1) جب صُبح ہُوئی تو سب سردار کاہِنوں اور قَوم کے بُزُرگوں نے یِسُوؔع کے خِلاف مشورَہ کِیا کہ اُسے مار ڈالیں
(2) اور اُسے باندھ کر لے گئے اور پِیلاؔطُس حاکِم کے حوالہ کِیا۔
(11) یِسُوؔع حاکم کے سامنے کھڑا تھا اور حاکِم نے اُس سے یہ پُوچھا کہ کیا تُو یہُودِیوں کا بادشاہ ہے؟ یِسُوؔع نے اُس سے کہا تُو خُود کہتا ہے۔
(12) اور جب سردار کاہِن اور بُزُرگ اُس پر اِلزام لگا رہے تھے اُس نے کُچھ جواب نہ دِیا۔
(13) اِس پر پِیلاؔطُس نے اُس سے کہا کیا تُو نہیں سُنتا یہ تیرے خِلاف کِتنی گواہیاں دیتے ہیں؟
(14) اُس نے ایک بات کا بھی اُس کو جواب نہ دِیا۔ یہاں تک کہ حاکِم نے بُہت تَعجُّب کِیا۔
(22) پِیلاؔطُس نے اُن سے کہا پِھر یِسُوؔع کو جو مسِیح کہلاتا ہے کیا کرُوں؟ سب نے کہا وہ مصلُوب ہو۔
(23) اُس نے کہا کیوں اُس نے کیا بُرائی کی ہے؟ مگر وہ اَور بھی چِلاّ چِلاّ کر کہنے لگے وہ مصلُوب ہو۔
(24) جب پِیلاؔطُس نے دیکھا کہ کُچھ بَن نہیں پڑتا بلکہ اُلٹا بلوا ہوتا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے رُوبرُو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا مَیں اِس راست باز کے خُون سے بری ہُوں۔
(25) ۔ سب لوگوں نے جواب میں کہا اِس کا خُون ہماری اور ہماری اَولاد کی گردن پر!
(26) اِس پر اُس نے براؔبّا کو اُن کی خاطِر چھوڑ دِیا اور یِسُوؔع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کِیا کہ مصلُوب ہو۔
(33) اور اُس جگہ جو گُلگُتا یعنی کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے پُہنچ کر
(34) پِت مِلی ہُوئی مَے اُسے پِینے کو دی مگر اُس نے چکھ کر پِینا نہ چاہا۔
(35)اور اُنہوں نے اُسے مصلُوب کِیا اور اُس کے کپڑے قُرعہ ڈال کر بانٹ لِئے۔
(36) اور وہاں بَیٹھ کر اُس کی نِگہبانی کرنے لگے۔
(37) اور اُس کا اِلزام لِکھ کر اُس کے سر سے اُوپر لگا دِیا کہ یہ یہُودِیوں کا بادشاہ یِسُوؔع ہے۔
(38) اُس وقت اُس کے ساتھ دو ڈاکُو مصلُوب ہُوئے۔ ایک دہنے اور ایک بائیں۔
(39) اور راہ چلنے والے سر ہِلا ہِلا کر اُس کو لَعن طَعن کرتے
(40) اور کہتے تھے۔ اَے مَقدِس کے ڈھانے والے اور تِین دِن میں بنانے والے اپنے تئِیں بچا۔ اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو صلِیب پر سے اُتر آ۔
(45) اور دوپہر سے لے کر تِیسرے پہر تک تمام مُلک میں اندھیرا چھایا رہا۔
(46) اور تِیسرے پہر کے قرِیب یِسُوؔع نے بڑی آواز سے چِلاّ کر کہا ایلی۔ ایلی۔ لَما شَبقتَنِی؟ یعنی اَے میرے خُدا! اَے میرے خُدا! تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دِیا؟
(47) جو وہاں کھڑے تھے اُن میں سے بعض نے سُن کر کہا یہ ایلیّاہ کو پُکارتا ہے۔
(48) اور فوراً اُن میں سے ایک شخص دَوڑا اور سپنج لے کر سِرکہ میں ڈبویا اور سرکنڈے پر رکھ کر اُسے چُسایا۔
(49) مگر باقِیوں نے کہا ٹھہر جاؤ۔ دیکھیں تو ایلیّاہ اُسے بچانے آتا ہے یا نہیں
(50) یِسُوؔع نے پِھر بڑی آواز سے چِلاّ کر جان دے دی۔
(51) اور مَقدِس کا پردہ اُوپر سے نِیچے تک پھٹ کر دو ٹُکڑے ہو گیا اور زمِین لرزی اور چٹانیں تڑک گئِیں۔
(52) اور قبریں کُھل گئِیں اور بُہت سے جِسم اُن مُقدّسوں کے جو سو گئے تھے جی اُٹھے۔
(53) اور قبریں کُھل گئِیں اور بُہت سے جِسم اُن مُقدّسوں کے جو سو گئے تھے جی اُٹھے۔
(54) پس صُوبہ دار اور جو اُس کے ساتھ یِسُوؔع کی نِگہبانی کرتے تھے بَھونچال اور تمام ماجرا دیکھ کر بُہت ہی ڈر کر کہنے لگے کہ بیشک یہ خُدا کا بیٹا تھا۔
(55) اور وہاں بُہت سی عَورتیں جو گلِیل سے یِسُوؔع کی خِدمت کرتی ہُوئی اُس کے پِیچھے پِیچھے آئی تِھیں دُور سے دیکھ رہی تِھیں۔
یسوع کیوں موا؟
یسوع کی موت خدا کے اس منصوبے کا حصہ تھی جس میں ہر اس شخص کو بچایا گیا تھا جو اس پر یقین کرے گا۔ عہد نامہ قدیم میں پیشن گوئیاں یسوع کی موت کو بیان کرتی ہیں۔
(e.g.یسعیاہ 53)
(1) ہمارے پَیغام پر کَون اِیمان لایا؟ اور خُداوند کا بازُو کِس پر ظاہِر ہُؤا؟
(2) پر وہ اُس کے آگے کونپل کی طرح اور خُشک زمِین سے جڑ کی مانِند پُھوٹ نِکلا ہے۔ نہ اُس کی کوئی شکل و صُورت ہے نہ خُوب صُورتی اور جب ہم اُس پر نِگاہ کریں تو کُچھ حُسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مُشتاق ہوں۔
(3) وہ آدمِیوں میں حقِیر و مردُود۔ مَردِ غم ناک اور رنج کا آشنا تھا۔ لوگ اُس سے گویا رُوپوش تھے اُس کی تحقِیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کُچھ قدر نہ جانی۔
(4) تَو بھی اُس نے ہماری مشقّتیں اُٹھا لِیں اور ہمارے غموں کو برداشت کِیا۔ پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہُؤا سمجھا۔
(5) حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کِیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعِث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لِئے اُس پر سیاست ہُوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔
(6) ہم سب بھیڑوں کی مانِند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لا دی۔
(7) ۔ وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جِس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زُبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔
(8) وہ ظُلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے پر اُس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کِس نے خیال کِیا کہ وہ زِندوں کی زمِین سے کاٹ ڈالا گیا؟ میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔
(9) اُس کی قبر بھی شرِیروں کے درمِیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی مَوت میں دَولت مندوں کے ساتھ مُؤا حالانکہ اُس نے کِسی طرح کا ظُلم نہ کِیا اور اُس کے مُنہ میں ہرگِز چھل نہ تھا۔
(10) لیکن خُداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگِین کِیا۔ جب اُس کی جان گُناہ کی قُربانی کے لِئے گُذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عُمر دراز ہو گی اور خُداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسِیلہ سے پُوری ہو گی۔ اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا
(11) اپنے ہی عِرفان سے میرا صادِق خادِم بُہتوں کو راست باز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خُود اُٹھا لے گا۔
(12)اِس لِئے مَیں اُسے بزُرگوں کے ساتھ حِصّہ دُوں گا اور وہ لُوٹ کا مال زورآوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان مَوت کے لِئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شُمار کِیا گیا تَو بھی اُس نے بُہتوں کے گُناہ اُٹھا لِئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔
(3) یہ ہمارے مُنجّی خُدا کے نزدِیک عُمدہ اور پسندِیدہ ہے۔
(4) وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچّائی کی پہچان تک پُہنچیں۔
(5) کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور اِنسان کے بِیچ میں درمِیانی بھی ایک یعنی مسِیح یِسُوؔع جو اِنسان ہے۔
(6) جِس نے اپنے آپ کو سب کے فِدیہ میں دِیا کہ مُناسِب وقتوں پر اِس کی گواہی دی جائے۔
یسوع نے کیوں اپنی جان دی؟
(8) لیکن خُدا اپنی مُحبّت کی خُوبی ہم پر یُوں ظاہِر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسِیح ہماری خاطِر مُؤا۔
خدا نے یسوع کو مرنے کے لئے کیوں بھیجا؟
(21) جو گُناہ سے واقِف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گُناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہو کر خُدا کی راست بازی ہو جائیں۔
یسوع کو کس طرح ہمارے لئے متبادل بنایا گیا؟
یسوع دوبارہ زندہ کیوں ہوا؟
(1) اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلے دِن پَو پھٹتے وقت مرؔیم مگدلِینی اور دُوسری مرؔیم قبر کو دیکھنے آئِیں۔
(2) اور دیکھو ایک بڑا بَھونچال آیا کیونکہ خُداوند کا فرِشتہ آسمان سے اُترا اور پاس آ کر پتّھر کو لُڑھکا دِیا اور اُس پر بَیٹھ گیا۔
(3) اُس کی صُورت بِجلی کی مانِند تھی اور اُس کی پوشاک برف کی مانِند سفید تھی۔
(4) اور اُس کے ڈر سے نِگہبان کانپ اُٹھے اور مُردہ سے ہو گئے۔
(5) فرِشتہ نے عَورتوں سے کہا تُم نہ ڈرو کیونکہ مَیں جانتا ہُوں کہ تُم یِسُوؔع کو ڈھُونڈتی ہو جو مصلُوب ہُؤا تھا۔
(6) وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مُطابِق جی اُٹھا ہے۔ آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خُداوند پڑا تھا۔
(7) آؤ یہ جگہ دیکھو جہاں خُداوند پڑا تھا۔ اور جلد جا کر اُس کے شاگِردوں سے کہو کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور دیکھو وہ تُم سے پہلے گلِیل کو جاتا ہے۔ وہاں تُم اُسے دیکھو گے۔ دیکھو مَیں نے تُم سے کہہ دِیا ہے۔
(8) اور وہ خَوف اور بڑی خُوشی کے ساتھ قبر سے جلد روانہ ہو کر اُس کے شاگِردوں کو خبر دینے دوڑِیں۔
(9) اور دیکھو یِسُوؔع اُن سے مِلا اور اُس نے کہا سلام! اُنہوں نے پاس آ کر اُس کے قدم پکڑے اور اُسے سِجدہ کِیا۔
(10) اِس پر یِسُوؔع نے اُن سے کہا ڈرو نہیں۔ جاؤ میرے بھائِیوں سے کہو کہ گلِیل کو چلے جائیں۔ وہاں مُجھے دیکھیں گے۔
”
یسوع کی تدفین کے تین دن بعد کیا ہوا؟
(23) جب وہ خُدا کے مُقرّرہ اِنتِظام اور عِلمِ سابِق کے مُوافِق پکڑوایا گیا تو تُم نے بے شرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلُوب کروا کر مار ڈالا۔
(24) لیکن خُدا نے مَوت کے بَند کھول کر اُسے جِلایا کیونکہ مُمکِن نہ تھا کہ وہ اُس کے قبضہ میں رہتا۔
یسوع کیسے زندہ ہوا؟
(13) اور اُس نے تُمہیں بھی جو اپنے قصُوروں اور جِسم کی نامختُونی کے سبب سے مُردہ تھے اُس کے ساتھ زِندہ کِیا اور ہمارے سب قصُور مُعاف کِئے
(14) اور حُکموں کی وہ دستاوِیز مِٹا ڈالی جو ہمارے نام پر اور ہمارے خِلاف تھی اور اُس کو صلِیب پر کِیلوں سے جَڑ کر سامنے سے ہٹا دِیا۔
(15) اُس نے حُکُومتوں اور اِختیاروں کو اپنے اُوپر سے اُتار کر اُن کا برملا تماشا بنایا اور صلِیب کے سبب سے اُن پر فتح یابی کا شادِیانہ بجایا۔
یسوع نے اپنی موت اور قیامت کے ذریعے کیا حاصل کیا؟
(14) اور خُدا نے خُداوند کو بھی جِلایا اور ہم کو بھی اپنی قُدرت سے جِلائے گا۔
مسیحی کیوں یقین کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟
اپنے دوست سے پوچھیں
-
ایسٹر (عید قیامت المسیح ) کا آپ کے لئے کیا مطلب ہے؟
-
ایسٹر پیغام پر آپ کا کیا جواب ہے؟
-
ایسٹر کے بارے میں آپ کا اور کیا سوال ہے؟
اطلاق
-
ایسٹر کا پیغام اتنا اہم کیوں ہے؟
-
اِس پیغام کا آپ کی زندگی کے لئے کیا مطلب ہے؟
-
ہمیں اس کا کیا جواب دینا چاہئے؟
نمونہ کی دعا
خداوند یسوع، براہ مہربانی مجھے ان غلط کاموں کے لئے معاف کر دیں جو میں نے کیے ہیں۔ میں تیرا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تو میرے لیے موا تاکہ مجھے مرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ براہ کرم مجھے ہر روز گناہ سے آزادی حاصل کرنے میں مدد کر۔
اہم آیت
لیکن خُدا اپنی مُحبّت کی خُوبی ہم پر یُوں ظاہِر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسِیح ہماری خاطِر مُؤا۔