ایک باپ کی محبّت
یسوع مسیح نے کھوئے ہوئے بیٹے کے بارے میں کہانی سُنا کر یہ بتایا کہ وہ ہم سے کتنا پیار کرتا ہے اور جب ہم اُس کی طرف واپس مُڑتے ہیں تو وہ ہمیں کیسے قبول کرتا ہے۔
بیٹا اپنی راہ لیتا ہے
(11) پِھر اُس نے کہا کہ کِسی شخص کے دو بیٹے تھے۔
(12) اُن میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا اَے باپ! مال کا جو حِصّہ مُجھ کو پہنچتا ہے مُجھے دے دے
(13) اُس نے اپنا مال متاع اُنہیں بانٹ دِیا۔ اور بُہت دِن نہ گُذرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کُچھ جمع کر کے دُور دراز مُلک کو روانہ ہُؤا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دِیا۔
چھوٹا بیٹا کس قسم کا شخص تھا؟
(11) پِھر اُس نے کہا کہ کِسی شخص کے دو بیٹے تھے۔
(12) اُن میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا اَے باپ! مال کا جو حِصّہ مُجھ کو پہنچتا ہے مُجھے دے دے۔ اُس نے اپنا مال متاع اُنہیں بانٹ دِیا۔
(13) اور بُہت دِن نہ گُذرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کُچھ جمع کر کے دُور دراز مُلک کو روانہ ہُؤا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دِیا
(14) اور جب سب خرچ کر چُکا تو اُس مُلک میں سخت کال پڑا اور وہ مُحتاج ہونے لگا۔
(15) پِھر اُس مُلک کے ایک باشِندہ کے ہاں جا پڑا۔ اُس نے اُس کو اپنے کھیتوں میں سُؤر چرانے بھیجا
(16) اور اُسے آرزُو تھی کہ جو پَھلِیاں سُؤر کھاتے تھے اُن ہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔
چھوٹا بیٹے نے کیا کیا اور اُسکے ساتھ کیا ہوا؟
چھوٹا بیٹا ہوش میں آتا ہے ۔
(16) اور اُسے آرزُو تھی کہ جو پَھلِیاں سُؤر کھاتے تھے اُن ہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔
(17)پِھر اُس نے ہوش میں آ کر کہا میرے باپ کے بُہت سے مزدُوروں کو اِفراط سے روٹی مِلتی ہے اور مَیں یہاں بُھوکا مَر رہا ہُوں!
کیوں اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے باپ کے گھر واپس جائے؟
(15) پِھر اُس مُلک کے ایک باشِندہ کے ہاں جا پڑا۔ اُس نے اُس کو اپنے کھیتوں میں سُؤر چرانے بھیجا۔
(16)اور اُسے آرزُو تھی کہ جو پَھلِیاں سُؤر کھاتے تھے اُن ہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔
(17) پِھر اُس نے ہوش میں آ کر کہا میرے باپ کے بُہت سے مزدُوروں کو اِفراط سے روٹی مِلتی ہے اور مَیں یہاں بُھوکا مَر رہا ہُوں!
(18)مَیں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اُس سے کہُوں گا اَے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُنہگار ہُؤا۔
بیٹے نے باپ اور آسمان کے خلاف کون سا گناہ کیا؟
(19) اب اِس لائِق نہیں رہا کہ پِھر تیرا بیٹا کہلاؤُں۔ مُجھے اپنے مزدُوروں جَیسا کر لے۔’
بیٹاگھر واپس جانے پر کس قسم کے برتاؤ یا رویہ کی توقع کر رہا تھا؟
بطور بیٹا دوبارہ قبول کیا جانا!
(17)پِھر اُس نے ہوش میں آ کر کہا میرے باپ کے بُہت سے مزدُوروں کو اِفراط سے روٹی مِلتی ہے اور مَیں یہاں بُھوکا مَر رہا ہُوں!
(18)مَیں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اُس سے کہُوں گا اَے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُنہگار ہُؤا۔
(19) اب اِس لائِق نہیں رہا کہ پِھر تیرا بیٹا کہلاؤُں۔ مُجھے اپنے مزدُوروں جَیسا کر لے۔
(20)پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔ وہ ابھی دُور ہی تھا کہ اُسے دیکھ کر اُس کے باپ کو ترس آیا اور دَوڑ کر اُس کو گلے لگا لِیا اور چُوما۔
(21)بیٹے نے اُس سے کہا اَے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُنہگار ہُؤا۔ اَب اِس لائِق نہیں رہا کہ پِھر تیرا بیٹا کہلاؤُں۔
جب بیٹے کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا ،تو اُس نے کیا کیا؟
(20) پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔ وہ ابھی دُور ہی تھا کہ اُسے دیکھ کر اُس کے باپ کو ترس آیا اور دَوڑ کر اُس کو گلے لگا لِیا اور چُوما۔
(21) بیٹے نے اُس سے کہا اَے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُنہگار ہُؤا۔ اَب اِس لائِق نہیں رہا کہ پِھر تیرا بیٹا کہلاؤُں۔
(22)باپ نے اپنے نَوکروں سے کہا اچھّے سے اچّھا لِباس جلد نِکال کر اُسے پہناؤ اور اُس کے ہاتھ میں انگُوٹھی اور پاؤں میں جُوتی پہناؤ۔
(23) اور پَلے ہُوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تاکہ ہم کھا کر خُوشی منائیں۔
(24)کیونکہ میرا یہ بیٹا مُردہ تھا۔ اب زِندہ ہُؤا۔ کھو گیا تھا۔ اب مِلا ہے۔ پس وہ خُوشی منانے لگے۔
کیا باپ نے بیٹے کو قبول کیا؟ کیسے ہم اِس بات کو جانتے ہیں؟
آپ باپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
اپنے دوست سے پوچھیں۔
کیا آپ خدا کی قبولیت اور معافی کی کہانی دوسروں کو بتا سکتے ہیں؟
آپ اس کہانی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
کیا یہ کہانی حقیقی زندگی کی طرح ہے؟
اطلاق
ہم خدا کے پاس واپس جانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
کیا آپ اِس قسم کی معافی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
دعا کا نمونہ
آسمانی باپ میں تیرا شکریہ ادا کر تا ہوں کیوں کہ تو مجھے پیار کرتا ہے۔ تو مجھے ہمیشہ معاف کر کے اپنے بچے کی طرح قبول کرتا ہے۔ تیرا پیار عجیب ہے۔
اہم آیت
دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے اور ہم ہیں بھی۔ دنیا ہمیں اِس لئے نہیں جانتی کہ اُس نے اُسے بھی نہیں جانا۔