زبان
(3) جب ہم اپنے قابُو میں کرنے کے لِئے گھوڑوں کے مُنہ میں لگام دے دیتے ہیں تو اُن کے سارے بدن کو بھی گُھما سکتے ہیں۔
(4) دیکھو جہاز بھی اگرچہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور تیز ہواؤں سے چلائے جاتے ہیں تَو بھی ایک نِہایت چھوٹی سی پَتوار کے ذرِیعہ سے مانجھی کی مرضی کے مُوافِق گھُمائے جاتے ہیں۔(5)اِسی طرح زُبان بھی ایک چھوٹا سا عُضو ہے اور بڑی شیخی مارتی ہے۔
بائبل زبان کو ہمارے جسم کا ایک چھوٹا لیکن طاقتور حصہ قرار دیتی ہے۔ یہ ہمارے آس پاس کے لوگوں اور ہماری اپنی زندگیوں پر اچھے یا برے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اس لیے یہ سب کے بہترین مفاد میں ہے کہ ہم اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو کنٹرول کرنا سیکھیں۔
(21) مَوت اور زِندگی زُبان کے قابُو میں ہیں اور جو اُسے دوست رکھتے ہیں اُس کاپھل کھاتے ہیں۔
الفاظ
درج ذیل آیات کو پڑھیں اور اچھے اور برے الفاظ کا موازنہ کریں۔
(2) داناؤں کی زُبان عِلم کا درُست بیان کرتی ہے۔ پر احمقوں کا مُنہ حماقت اُگلتا ہے۔
(4) صِحت بخش زُبان حیات کا درخت ہے پر اُس کی کج گوئی رُوح کی شِکستگی کا باعِث ہے۔
(18) بے تامُّل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانِش مند کی زُبان صِحت بخش ہے۔
(19) سچّے ہونٹ ہمیشہ تک قائِم رہیں گے لیکن جُھوٹی زُبان صِرف دَم بھر کی ہے۔
(35) اچّھا آدمی اچّھے خزانہ سے اچّھی چِیزیں نِکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چِیزیں نِکالتا ہے۔
(36)اور مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو نِکمّی بات لوگ کہیں گے عدالت کے دِن اُس کا حِساب دیں گے۔
(37)کیونکہ تُو اپنی باتوں کے سبب سے راست باز ٹھہرایا جائے گا اور اپنی باتوں کے سبب سے قُصُوروار ٹھہرایا جائے گا
ہماری زبان بتاتی ہےکہ ہم کون ہیں۔ یہ آیات الفاظ اور دلوں کے درمیان تعلق کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
(3) اپنے مُنہ کی نِگہبانی کرنے والا اپنی جان کی حِفاظت کرتا ہے لیکن جو اپنے ہونٹ پسارتا ہے ہلاک ہو گا۔
جو لوگ اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہیں وہ کیسے مبارک ہیں؟
(23) جو اپنے مُنہ اور اپنی زُبان کی نِگہبانی کرتا ہے اپنی جان کو مُصِیبتوں سے محفُوظ رکھتا ہے۔
ہم مصیبت سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
کیسے؟
(7) کیونکہ ہر قِسم کے چَوپائے اور پرِندے اور کِیڑے مکَوڑے اور دریائی جانور تو اِنسان کے قابُو میں آ سکتے ہیں اور آئے بھی ہیں۔
(8) مگر زُبان کو کوئی آدمی قابُو میں نہیں کر سکتا۔ وہ ایک بَلا ہے جو کبھی رُکتی ہی نہیں۔ زہرِ قاتِل سے بھری ہُوئی ہے۔
(9) اِسی سے ہم خُداوند اور باپ کی حمد کرتے ہیں اور اِسی سے آدمِیوں کو جو خُدا کی صُورت پر پَیدا ہُوئے ہیں بددُعا دیتے ہیں۔
(10) ایک ہی مُنہ سے مُبارک باد اور بددُعا نِکلتی ہے۔ اَے میرے بھائِیو! اَیسا نہ ہونا چاہئے۔
(11) کیا چشمہ کے ایک ہی مُنہ سے مِیٹھا اور کھاری پانی نِکلتا ہے؟
(12) اَے میرے بھائِیو! کیا انجِیر کے درخت میں زَیتُون اور انگُور میں انجِیر پَیدا ہو سکتے ہیں؟ اِسی طرح کھاری چشمہ سے مِیٹھا پانی نہیں نِکل سکتا۔
کیا تعریف اور لعنت کا ایک ہی منہ سے نکلنا درست ہے؟
(14) لیکن اگر تُم اپنے دِل میں سخت حسد اور تفرقے رکھتے ہو تو حق کے خِلاف نہ شیخی مارو نہ جُھوٹ بولو۔
(15)یہ حِکمت وہ نہیں جو اُوپر سے اُترتی ہے بلکہ دُنیَوی اور نفسانی اور شَیطانی ہے۔
(16) اِس لِئے کہ جہاں حَسد اور تفرقہ ہوتا ہے وہاں فساد اور ہر طرح کا بُرا کام بھی ہوتا ہے۔
یہ کیسی حکمت ہے؟ ان تین شعبوں کے نام بتائیں جن سے حسد اور خود غرضی آتی ہے۔
(17) مگر جو حِکمت اُوپر سے آتی ہے اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے۔ پِھر مِلنسار حلِیم اور تربِیّت پذِیر۔ رَحم اور اچھّے پَھلوں سے لدی ہُوئی۔ بے طرف دار اور بے رِیا ہوتی ہے۔
(18)اور صُلح کرانے والوں کے لِئے راست بازی کا پَھل صُلح کے ساتھ بویا جاتا ہے۔
ہمیں کس قسم کی حکمت کی ضرورت ہے؟ براہ کرم بیان کریں۔
الفاظ جو برکت لاتے ہیں۔
بیان کریں الفاظ کیسے برکت لاتے ہیں؟
(1)میرے دِل میں ایک نفِیس مضمُون جوش مار رہا ہے۔
مَیں وُہی مضامِین سناؤُں گا جو مَیں نے بادشاہ
کے حق میں قلم بند کِئے ہیں۔
میری زُبان ماہِر کاتب کا قلم ہے
(24) دِل پسند باتیں شہد کا چھتّا ہیں۔ وہ جی کو مِیٹھی لگتی ہیں اور ہڈِّیوں کے لِئے شِفا ہیں۔
(29)کوئی گندی بات تُمہارے مُنہ سے نہ نِکلے بلکہ وُہی جو ضرُورت کے مُوافِق ترقّی کے لِئے اچھّی ہو تاکہ اُس سے سُننے والوں پر فضل ہو۔
دوست سے پوچھیں
اطلاق
دعا
خُداوند، براہِ کرم مجھے اپنی زبان پر قابو پانے میں میری مدد کر۔ میں ایک ایسا شخص بننا چاہتا ہوں جو لوگوں کو اچھے الفاظ سے نوازے۔
اہم آیت
نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضب انگیز ہیں۔